"جو
کتابیں لے کہ آتا ہوں کبھی پڑھ بھی لیا کرو ۔" اس نے بے توجہی سے کہا ۔ وہ
خواہمخواہ ریموٹ کے بٹن دبائے جا رہا تھا ۔اسے ٹی وی سے نہایت چڑتھی۔شاید اس کی
وجہ یہ تھی کہ اس کہ والد صاحب بہت زیادہ ٹی وی دیکھتے تھے۔
وہ میزپر سبزی چھیلنے میں مصروف تھی ۔ہاتھ کی پشت سے وہ بار
بار بالوں کو پیچھے دھکیل رہی تھی ۔
"پڑھتی تو ہوں ۔"اس نے ایک ڈھیٹ کریلے کی کھال کریدتے ہوئے
کہا ۔
"کہاں پڑھتی ہو ؟"اتنے بٹن دبانے کے بعد بھی ایک جیسی بکواس
ہر جگہ لگی ہوئی تھی ۔اکتاہٹ سے اس نے ریموٹ نیچے رکھ دیا ۔ٹی وی پر کسی حسینہ کو
اچھے بالوں کی وجہ سے نوکری مل گئی تھی ۔شاید مجھے بھی بال لمبے کر لینے چاہییں۔اس
نے من ہی من میں سوچا ۔
کریلوں کے بعد اب سبز مرچوں کے سر تن سے جدا کیے جا رہے تھے
۔
"کہاں پڑھتی ہو ؟ "پھر بار بار کہتی ہو میری تحریروں میں
کوئی کمی ہے ۔کردار سطحی ہیں ۔پلاٹ آگے نہیں بڑھتا۔
"تو کیا کروں آدھی
اندھی ہوں ۔زیادہ دیر پڑھوں تو سر درد سے پھٹنے لگتا ہے ۔عینک کے بغیر ٹھیک سے نظر
نہیں آتا ۔" اس نے کٹی ہوئی سبزی کو دوسرے برتن میں انڈیلا اور اس پر پانی ڈالنے
لگی ساتھ ہی اس نے اپنے ہاتھ بھی دھو لئے ۔
ٹی وی پر کوئی الو کا پٹھاداغ تو اچھے ہوتے ہیں کا بے
سرا راگ الاپ رہا تھا ۔
"تمہیں نہیں لگتا ہم سب نے عینکیں لگائی ہوئی ہیں ؟"
وہ من ہی من میں اشتہارات کے بارے میں سوچ رہا تھا ۔یہ ایک
الگ طلسماتی دنیا تھی ۔یہاں سب امیر تھے ۔یہاں سب سفید تھے ۔اس دنیا کا واحد مسلہ
ڈینڈریف تھا ۔اچانک اس کا دل کر نے لگا کہ وہ سکرین پھاڑکے اس کے اندر گھس جائے۔
"لو پھر آپ کی الٹی سیدھی باتیں شروع۔" اس نے سبزیوں کا غسل
تمام کرتے ہوئےکہا ۔
"سنو توسہی۔"اس نے التجائی لہجے میں کہا ۔جیسے وہ اس سے
محبت کا اقرار کرنے والا ہو ۔ایک تولوگ سنتے کیوں نہیں ۔اس نے سوچا ۔
وہ سبزیوں سے کھیلنے میں مصروف تھی ۔
"کیا ہم سب عینکیں لگائے ہوئے نہیں ہیں ؟" وہ تیز تیز بول
رہا تھا ۔کہیں وہ اٹھ کے چلی ہی نہ جائےاور ہمیشہ کی طرح اس کی بات آدھ میں رہ
جائے۔
"ہاں کدھر ہے تمہاری عینک دکھاؤ تو سہی مجھے ؟" اس نے اسے
چڑاتے ہوئےکہا ۔
"کیا میرا نظریہ عینک نہیں ، کیا میں ایک خاص شیسے سے دنیا
کو نہیں دیکھتا ۔ کیا ہم سب نے اپنی اپنی عینکیں نہیں لگائی ہوئیں۔جیسے ہر کسی کی
عینک کا اپنا ایک خاص نمبر ہو ۔ ہر طبقے کی اپنی ایک مخصوص عینک ہے اور جب کوئی
غیر شخص مختلف عینک کے ساتھ ان میں آبیٹھتا ہے تو وہ اسے اندھا سمجھتے ہیں ۔ حقیقت
تو یہ ہے کہ وہ ایک دوسری دنیا دیکھ رہا ہے جو یہ نہیں دیکھ سکتے ۔"
اسے پہلے دن سے ہی اندازہ تھا کہ وہ ایک عجیب شخص ہے ۔ٹی وی
کے سامنے بیٹھے بیٹھے اس نے کیسا فلسفہ جھاڑ دیا تھا ۔
"ہاں کبھی کوئی کام کی بات مت کرنا ۔"اس نے منہ بسورتے ہوئے
کہا ۔
"تمہیں پتا ہے مجھے پہلی مرتبہ بینائی کا احساس کب ہوا ؟"
"بتائے بغیر تو آپ
رہنے والےنہیں۔" وہ چھلکے شاپر میں ڈال
رہی تھی ۔
"ایک مرتبہ چودہ اگست پر آوارہ گردی کر رہا تھا ۔ہم ایک مال
کے باہرٹہرےہوئے تھے ۔یہاں بہت ہجوم تھا ۔یہ کرونا سے پہلے کی دنیا تھی ۔" اس نے
آہ بھرتے ہوئےکہا ۔
"بارہ بجے آتش بازی ہونی تھی ۔پہلی مرتبہ مجھے بینائی کا
احساس یہاں پر ہی ہوا تھا ۔کوئی بھی بینائی
کی اہمیت کو سمجھتا نہیں ۔ یہ ایسے ہی ہے جیسے سورج ہو ۔ آپ اس کے ساتھ پیدا ہوتے
ہیں لیکن آپ کبھی اسے اہم نہیں سمجھتے۔ کیا
تم نے کبھی آتش بازی دیکھی ہے ۔اگر خدا معجزات کرتا ہے تو پھر آتش بازی انسان کا
معجزہ ہے ۔کیسے آسمان رنگوں سے بھرجاتا ہے نہ ۔" وہ شاید کمرے سے نکل کر کسی دور
دیس میں چلا گیا تھا ۔یادوں کا طلسماتی دیس ،جہاں سب یادیں ایک کلک کی دوری پہ
تھیں اور لمحات بغیر بفرنگ اور ایڈز کے چلتے تھے۔
" خیر ناجانے کیوں اچانک ہی مجھے احساس ہوا کہ بہت سے لوگ
یہ منظر نہیں دیکھ سکتے ۔وہاں کوئی نابینا شخص نہیں تھا اور ہو گا بھی کیوں بھلا
لیکن اس دن مجھے اپنی بینائی کا احساس ہوا تھا ۔ کیا عجیب بات نہیں کہ ہمیں ہر اس
چیز کا احساس ہوتا ہے جو دوسرے کے پاس نہ ہو ۔ ہم اتنے کمینے کیوں ہیں ؟"
وہ خاموشی سے اس کی باتیں سن رہی تھی ۔سبزی تو وہ بھول ہی
چکی تھی ۔لفظ ہمیں کہاں سے کہاں لے جاتے ہیں ۔
کمرے میں سناٹاچھا گیا تھا ۔جیسے ٹی وی بھی کچھ دیر اس کی بات سننے کے لئےخاموش ہو گیا ہو ۔
"میں سونے جا رہا ہوں ۔" یہ کہہ کر وہ کمرے کی طرف بڑھ گیا ۔جیسے
یہ سب کہہ کہ وہ بہت تھک سا گیا ہو ۔
اس کی نظر ٹی وی کے سامنے رکھی کتابوں کی طرف بڑھ گئی ۔وہ
کچھ دیر انہیں دیکھتی رہی ۔پھر اس نے سبزی سمیٹی اور کچن کی طرف بڑھ گئی۔
No comments:
Post a Comment